Tuesday 2 February 2016

کیا قائداعظم سیکولر تھے؟

کیا قائداعظم سیکولر تھے؟

تحریر: عباس غفاری

"جونہی میں انکے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب (مغربی پنجاب کےپہلے  وزیر اعلی ) رسمی تکلفات کی پرواہ کئے بغیر کہنے لگے۔ "اسد صاحب ! میرے خیال میں اب ہمیں ان نظریاتی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے چاہئییں۔ آپ نے انکے بارے میں تقریرًا اور تحریرًا بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیر اعظم سے رجوع کرنا چاہیئے؟"
کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا ، چنانچہ میں نے پہلے ہی اسکا جواب سوچ رکھا تھا:"ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا ، اسلئے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیئے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیئے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لاسکے، جنکی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں۔"
نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا۔"آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیئے؟"
میں نے جواباً عرض کیا۔ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ مناسب رہے گا۔ کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی۔یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرِ نو۔"
یہ اقتباس ،کہ جسکا ایک ایک لفظ اس بات پہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان کے پس منظر پہ کون سا نظریہ کارفرما تھا، علامہ محمد اسد کے خود نوشت سوانح عمری "محمد اسد ، بندہ صحرائی" سے ماخوذ ہے۔یہ وہ  شخصیت تھے جسکو قیام پاکستان کےبعد  اکتوبر 1947 کو مغربی پنجاب کے وزیر اعلٰی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے اپنے دفتر بلایا اور دستور سازی کیلئے کام کرنے کی درخواست کی اور جیساکہ ظاہر ہے علامہ اسد صاحب کو پہلے سے اس بات کی توقع تھی اور وہ ذہنی طور پر مکمل تیار تھے۔ یوں اسلامی دستور سازی کیلئے تحقیق کی غرض سے اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ- Department of Islamic Reconstruction" بنا۔ اسی خودنوشت میں آگے لکھتے ہیں۔ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے ، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تفحص کا یہ مرحلہ طے ہورہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: "میں نے ابھی ابھی آپکا مضمون 'اسلامی دستورسازی کی جانب' پڑھا ہےجو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیئے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کراؤں گا اور اسکو دیکھ کر ممکن ہے ، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو۔" چنانچہ  1948 میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیر نگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیر اعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں (لیاقت علی خان) نے۔۔۔چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔" اسی ملاقات میں وزیر اعظم صاحب نے کشمیر میں بھارت کے ساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے انکو دستورسازی کا کا م مؤخر کرنے کا کہا لیکن ساتھ تاکید کی کہ تحقیق کا کام جاری رکھیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ اسی کشمیر کے سلسلے میں علامہ محمد اسد کو ایک سفارتی مشن پہ بھیجا گیا اور اسکے تھوڑے عرصے بعد اس محکمے کے دفتر میں آگ لگ گئی (یا شاید لگائی گئی) اور انکا سارا تحقیقی کام جل کر خاکستر ہوگیا۔

یہ ساری کہانی اکتوبر 1947 سے 1948 تک کی ہے جس میں قائداعظم ؒ حیات تھے اور پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ سیکولر اور لادین تھے تو کیا وہ اتنے غیرذمہ دار تھے کہ انہیں ان سرگرمیوں کا پتہ نہیں تھا؟ 19 اکتوبر 1947 کے پاکستان ٹائمز میں علامہ صاحب کا ایک انٹرویو چھپتا ہے جس میں وہ اپنے تحقیقی کام کے بارے میں تفصیلات دیتے ہیں۔ کیا یہ سب قائد اعظم کی نظروں سے مخفی تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ادارے کی حتمی منظوری کس نے دی تھی؟ وہ منظوری جسکا مسودہ آج بھی پنجاب کے محکمہ آرکائیوز میں پڑا ہوا ہے؟  کیا یہ سب کافی نہیں ہے انکے نظرئیے کو واضح کرنے کیلئے، کیا یہ سب انکی مظلومیت پہ گواہی نہیں دیتی۔لیکن بات اب بھی باقی ہے۔ ہمیں کچھ اور بھی لکھنا ہے ایک مظلوم کے حق میں اور ایک احسان فراموش ظالم قوم کے خلاف ۔۔۔