اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت
اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت
کہا جاتا ھے کہ مذھب افراد کا ذاتی معاملہ ھے اور اسے معاشرے کے اجتماعی معاملات پر اثر انداز نہیں ھونا چاھئے ۔
اگر بالفرض اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو کیا اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ھے کے مذھب کے بغیر انسانوں کے اجتماعی معاملات کو باقاعدہ نمٹایا جا سکتا ھے ۔ معاشرے کے پاس کونسا ایسا قاعدہ رہ جاتا ھے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ھو ؟
قانون سازی ملکی اعتبار سے جدا جدا ھو گی کیونکہ ھر معاشرہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ھے ۔ ایک جگہ کا جرم دوسری جگہ کا اعزاز ھو سکتا ھے ۔
دیکھا گیا ھے کہ اخلاقی اعتبار سے مشرقی ممالک میں حیا کا پرچار ھوتا ھے مگر یہی حیا مغربی ممالک میں جا کر لعنت کا باعث ھو جاتی ھے ۔ تو قانونی اعتبار سے بھی ھمارے پاس کوئی یکساں پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا جس پر انسانی اقدار کو انصاف کے ساتھ ماپا جا سکے ۔
حتمی طورپر صرف مذھب ھی ایک واحد اکائی رہ جاتی ھے جو کلی طور پر تمام انسانی معاشروں کے لئے اخلاقی اقدار کی یکساں تعریف کر سکتا ھے جو ھر معاشرے کے شرفاء کے لئے قابل قبول ھو ۔
یہاں یہ بات ذھن نشین رکھنی چاھئے کے شرفاء ھی وہ معیار ھوں گے جن کی رائے اھمیت کی حامل ھو گی ۔ ورنہ تو ھر معاشرے میں شیطان کے بچے ﴿ لبرلز﴾ بھی پائے جاتے ھیں جن کو ھر اس بات سے اختلاف ھو گا جو انکی مادر پدر آزدی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔
مگر صرف چند بیہودہ لوگوں کی خاطر معاشرے کا سکون تو داو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔ اسلئے ضروری ھے کہ انسانی معاشرے میں مذھب کی نہ صرف دخل اندازی ھو بلکہ مذھب کو قانون سازی کا مکمل حق دیا جائے تاکہ فتنہ پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے ۔
No comments:
Post a Comment