Tuesday 2 February 2016

کیا قائداعظم سیکولر تھے؟

کیا قائداعظم سیکولر تھے؟

تحریر: عباس غفاری

"جونہی میں انکے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب (مغربی پنجاب کےپہلے  وزیر اعلی ) رسمی تکلفات کی پرواہ کئے بغیر کہنے لگے۔ "اسد صاحب ! میرے خیال میں اب ہمیں ان نظریاتی مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے چاہئییں۔ آپ نے انکے بارے میں تقریرًا اور تحریرًا بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیر اعظم سے رجوع کرنا چاہیئے؟"
کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا ، چنانچہ میں نے پہلے ہی اسکا جواب سوچ رکھا تھا:"ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا ، اسلئے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیئے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیئے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لاسکے، جنکی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں۔"
نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا۔"آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیئے؟"
میں نے جواباً عرض کیا۔ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ مناسب رہے گا۔ کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی۔یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرِ نو۔"
یہ اقتباس ،کہ جسکا ایک ایک لفظ اس بات پہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان کے پس منظر پہ کون سا نظریہ کارفرما تھا، علامہ محمد اسد کے خود نوشت سوانح عمری "محمد اسد ، بندہ صحرائی" سے ماخوذ ہے۔یہ وہ  شخصیت تھے جسکو قیام پاکستان کےبعد  اکتوبر 1947 کو مغربی پنجاب کے وزیر اعلٰی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے اپنے دفتر بلایا اور دستور سازی کیلئے کام کرنے کی درخواست کی اور جیساکہ ظاہر ہے علامہ اسد صاحب کو پہلے سے اس بات کی توقع تھی اور وہ ذہنی طور پر مکمل تیار تھے۔ یوں اسلامی دستور سازی کیلئے تحقیق کی غرض سے اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ- Department of Islamic Reconstruction" بنا۔ اسی خودنوشت میں آگے لکھتے ہیں۔ "محکمہ احیائے ملت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے ، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تفحص کا یہ مرحلہ طے ہورہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: "میں نے ابھی ابھی آپکا مضمون 'اسلامی دستورسازی کی جانب' پڑھا ہےجو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیئے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کراؤں گا اور اسکو دیکھ کر ممکن ہے ، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو۔" چنانچہ  1948 میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیر نگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیر اعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں (لیاقت علی خان) نے۔۔۔چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔" اسی ملاقات میں وزیر اعظم صاحب نے کشمیر میں بھارت کے ساتھ جاری کشمکش کی وجہ سے انکو دستورسازی کا کا م مؤخر کرنے کا کہا لیکن ساتھ تاکید کی کہ تحقیق کا کام جاری رکھیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ اسی کشمیر کے سلسلے میں علامہ محمد اسد کو ایک سفارتی مشن پہ بھیجا گیا اور اسکے تھوڑے عرصے بعد اس محکمے کے دفتر میں آگ لگ گئی (یا شاید لگائی گئی) اور انکا سارا تحقیقی کام جل کر خاکستر ہوگیا۔

یہ ساری کہانی اکتوبر 1947 سے 1948 تک کی ہے جس میں قائداعظم ؒ حیات تھے اور پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ سیکولر اور لادین تھے تو کیا وہ اتنے غیرذمہ دار تھے کہ انہیں ان سرگرمیوں کا پتہ نہیں تھا؟ 19 اکتوبر 1947 کے پاکستان ٹائمز میں علامہ صاحب کا ایک انٹرویو چھپتا ہے جس میں وہ اپنے تحقیقی کام کے بارے میں تفصیلات دیتے ہیں۔ کیا یہ سب قائد اعظم کی نظروں سے مخفی تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ادارے کی حتمی منظوری کس نے دی تھی؟ وہ منظوری جسکا مسودہ آج بھی پنجاب کے محکمہ آرکائیوز میں پڑا ہوا ہے؟  کیا یہ سب کافی نہیں ہے انکے نظرئیے کو واضح کرنے کیلئے، کیا یہ سب انکی مظلومیت پہ گواہی نہیں دیتی۔لیکن بات اب بھی باقی ہے۔ ہمیں کچھ اور بھی لکھنا ہے ایک مظلوم کے حق میں اور ایک احسان فراموش ظالم قوم کے خلاف ۔۔۔

Tuesday 24 March 2015

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

کسی بھی معاشرے میں یہ ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہوتی ہے کہ وہ جرائم کی سرزدگی پر مجرم کو سزا دے۔ کسی فرد کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مجرموں کو سزا دے۔ ایسا کرنے سے وہ خود جرم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جرم ایک اجتماعی تنازعہ ہوتا ہے جسکا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جسے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی نگرانی کی ذمہ داری ملی ہو۔اسکے برعکس اگر یہ اختیار فرد کے پاس ہوتا تو اسکا مطلب ہے کہ کسی قوم کے ہر فرد کا حق ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے۔ اس طرح تو پھر یہی ہوگا کہ پوری کی پوری قوم مجرم پہ ٹوٹ پڑے اور اسکا ستیاناس کرے۔ اسکی اجازت نہ تو ہمیں ہمارا دین دیتا ہے نہ آئین دیتا ہے اور نہ ہی یہ بات عقل مانتی ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ مسلم دنیا میں فرد اور ریاست کے درمیان فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔ جسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستوں میں قانون کے نفاذ کا کام صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے، مسلمان ریاستوں کے اندر ریاستی طاقت کے استعمال کا ایک خلاء ہے نتیجتاً فرد آگے بڑھ کر اس خلاء کو پر کر رہا ہے ۔ افراد اور عوام ریاست کی طرف سے مایوس ہورہے ہیں ۔ وہ اپنے معاملات کا حل ریاست کے پاس نہیں پاتے اور خود ہی اسے حل کرنے لگ گئے ہیں۔ اور خصوصاً جرم اگر مذہب یا مذہبی شعائر کے توہین پر مبنی ہو تو اس میں تو فرد مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔
یہ واضح ہونے کے بعدکہ سزاؤں کا نفاذ صرف او ر صرف حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے ، اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہےکہ کسی بھی سزا کے نفاذ کیلئے شرائط کیا ہونے چاہیئں ۔ ایک شرط تو مندرجہ بالا ہے کہ ریاست ہی اسکے نفاذ کی مختار ہے۔ اسکے علاوہ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جرم بالکل اظہرمن الشمس ہونا چاہیئے ۔ اللہ تعالی نے زنا کیلئے حد مقرر کرتے وقت چار گواہوں کی شرط اسی لئے رکھی ہے کہ وہ جرم اتنا واضح ہو کہ اسے چار آدمی باآسانی دیکھ لیں۔ تب ہی جاکر ان پر سزائے تازیانہ یا رجم کی سزا کا نفاذ ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ملاحظہ ہوں۔
ابن ماجہ میں روایت ہے۔ "سزاؤں کو دفع کرو جتنا اسے دفع کرنے کی گنجائش پاؤ۔''
ایک دوسری حدیث میں ہے۔ " مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ہو۔ اگر کسی ملزم کیلئے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔"
اسکے علاوہ ایک واقعہ ہے کہ جو اس معاملے میں قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔بخاری و ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ مدینہ میں ایک فاحشہ عورت رہتی تھی لیکن چونکہ اسکے خلاف بدکاری کا کوئی ثبوت نہیں تھا اسلئے اسے کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اسکے متعلق رسول اللہ ﷺ کے الفاظ یہ تھے"اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا۔"
ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ محض شک و شبے کی بنیاد پہ کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ فقہاء نے تو ایک فقہی اصول تک وضع کردیا ہے کہ " شبہ سزا دینےکیلئے نہیں بلکہ معاف کرنے کیلئے محرک ہونا چاہیئے۔"
ان تمام روایات اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کابل کے واقعے کو پرکھیئے کہ مردوں پر مشتمل ایک ہجوم ایک عورت کو قرآن کی بے حرمتی کی شبہ (محض الزام) میں بغیر کسی ثبوت کے مار پیٹ کے لہولہان کرنے کے بعد زندہ جلا دیتا ہے جبکہ پولیس کھڑی تماشہ دیکھتی ہے۔اور پھر یہ جانے بغیر کہ کسی کو بطور سزا زندہ جلا دینے کےبارے میں قرآن و سنت کی رائے کیا ہے ایک ملزمہ کو زندہ جلا دینے سے ، یہ اسلام اور شعائر اسلام کے محافظ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ کیا اس سے اسلام کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا اسکے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مخالفین ِ اسلام اسلام کو کس طرح ایک خونخوار مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئیے کہ آپکا جواب کیا ہوگا اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ پچھلے دو سو سال سے اسلام نے دنیا کو سوائے خونریزی کے کیا دیا ہے۔ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ فرد بذات خود ریاست ہے تو ریاست کی ضرورت آپکو کیا ہے۔ باہر کی دنیا یہ نہیں جانتی کہ اسلام کے اصول اور مسلمان کے عمل کے درمیان فرق کیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے اعمال کو اسلام کے اصولوں کے طور پر لے رہے ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ایک مسلمان جو کرتا ہے وہ لازمی طور پر اسلام نہیں ہوتا ، بلکہ اسلام تو یہ ہے جو ایک مسلمان کو لازمی طور کرناچاہیئے۔انہیں اسلام میں گناہ اور نیکی کے تصور کا ادراک نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کے گناہوں کو بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان خود بھی یہ نہیں جانتے ۔ یہی مسلمان ہے جو ریاست کے غیر موجودگی کا رونا بھی رو رہا ہے اور یہی مسلمان ہے جو خود ریاست بنا پھر بھی رہا ہے۔ یہی مسلمان ہے جو ذمیوں کے حقوق پر لیکچرز بھی دے رہا ہے اور یہی مسلمان ہے کہ عیسائی جوڑے کو زندہ بھی جلا دیتا ہے ۔ چرچز اور امام بارگاہوں پر حملے بھی کررہا ہے۔ یہی مسلمان ہیں جو اللہ تعالی کو اقتدارِ اعلی کا حاکم مان بھی رہے ہیں اور یہی مسلمان ہیں جو اللہ تعالی کے حدود سے تجاوز بھی کررہے ہیں۔اور ایسی ہی صورتحال میں جب علامہ اقبال اللہ تعالی کو امت مسلمہ کے حالتِ زار کے بارے میں شکوہ کرتا ہے تو جواب آتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


Saturday 6 December 2014

اک تیر سے کئ شکار۔۔۔۔ تیل کے عالمی سظح پر قیمتوں میں کمی کے اثرات۔۔۔


گزشتہ چند مہینوں سے مسلسل عالمی سطح پر تیل کے قیمتوں میں کمی آرہی ہے جس کا فائدہ براہ راست تیل درآمد کرنے والے ممالک کو ہورہا ہے جبکہ  وہ ممالک جنکی آمدنی کا انحصارپٹرولیم مصنوعات پر ہے ان ممالک کیلئے یہ ایک  بہت بڑا اقتصادی دھچکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے قیمتوں کا انحصار مارکیٹ میں اسکی طلب اور یومیہ تیل کی سپلائی پر ہوتا ہے۔  سپلائی میں زیادتی اور طلب میں کمی کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گرتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب دنیا کا سب سے زیادہ تیل سپلائی کرنے والے ممالک میں سے ایک  ہے جو یومیہ 9.7 ملین بیرلز سپلائی کرتا ہے جو اوپیک (OPEC: Organization of Petroleum exporting countries)  ، جس میں سعودی عرب سمیت کل بارہ تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں، کی مجموعی سپلائی کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے باقی دو تہائی حصہ باقی کے 11 ممالک سپلائی کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر پٹرولیم مصنوعات کے قیمتو ں کا زیادہ تر انحصار سعودی عرب کی یومیہ سپلائی پر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند مہینوں پہلے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو وینزویلا اور اوپیک میں شامل دوسرے چھوٹے ممالک  نے سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ کچھ وقت کیلئے سپلائی کو منقطع کردے تاکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو بحال کیا جاسکے لیکن سعودی عرب نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے سپلائی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔جسکی وجہ سے پچھلے چار سالوں میں پہلی بار تیل کی قیمتوں  میں سب سے زیادہ یومیہ کمی دیکھی گئی۔ لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ کیوں وہ اپنی معیشت داؤ پر لگا رہا ہے؟  کیوں وہ اپنے  سالانہ 35بلین ڈالر سے 55 بلین ڈالرکو دریابرد کررہا ہے؟
حال ہی میں بنک آف امریکہ مرل لنچ (Bank of America-Merill lynch)   کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب داعش کی آمدنی کو کم کرنے  اور مشرقِ وسطی  میں انکو اپنا  اثر ورسوخ بڑھانے سے روکنے کیلئے تیل کی قیمت کو 85$ فی بیرل تک لے آئے گا۔دراصل معاملہ یہ ہے کہ داعش اس وقت بشمول موصل عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر قابض ہے ۔ شام کے سب سے  بڑےآئل فیلڈ سمیت 60 فی صد تیل کے ذخائر جبکہ عراق کے سات آئل فیلڈز انکے  قبضے میں ہیں جس سے تیل نکال کر وہ ترکی کے بلیک مارکیٹ میں انٹرنیشنل مارکیٹ کےپچاس فی صد قیمت پر فروخت کر تے ہیں ۔اس تیل کو ترکی دوبارہ اپنی قیمت پر یورپی ممالک کو بیچ دیتا ہے۔ اسی تیل سے داعش کو پچھلے گرمیوں میں 3 ملین ڈالر یومیہ آمدنی  مل رہی تھی ۔ اسطرح انکی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی تیل کے ذخائر ہیں۔ داعش چونکہ سعودی عرب  کیلئے  ایک خطرہ ہے اس لئے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے سپلائی منقطع نہ کرنے کے فیصلے سے داعش کے تیل کی قیمت کم ہوجائیگی جو انکی اکانومی پر ایک کاری ضرب ہے ۔
       رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف داعش کو نقصان ہوگا بلکہ  امریکہ اور کینیڈا  کے شیل آئل انڈسٹری (Shale oil)  (وہ تیل جو پتھروں اور ریت  سے حاصل کیا جاتاہے) کو بھی نقصان ہوگا جو سعودی عرب کے متوازی تیل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ شیل آئل کو پتھروں سے نکالنے کیلئے ہائڈرالک  فریکچرنگ (Hydraulic fracturing کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں پانی یا دوسرے مایعات  کے پریشر سے پتھروں کو توڑ کر تیل حاصل کیا جاتاہے چونکہ یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اس لئے اگر تیل کی قیمت 80$ سے کم ہو  تو  نئے تیل کے تلاش اور ڈرلنگ کے لئے منافع کم ہوگا اس لئے امریکہ اور کینیڈا میں کمپنیز انوسٹمنٹ بند کردینگے ۔ چونکہ امریکہ شیل آئل پراجیکٹ کی وجہ سے انرجی کے معاملے میں  خود کفیل ہورہا تھا اور 2008 سے لیکراب تک 3.6 ملین بیرل یومیہ  خام تیل کی  پیداوار بڑھا رہا تھا اس لئے اگر ایک طرف    امریکہ کی شیل آئل انڈسٹری سعودی عرب کے متوازی آرہی تھی تو دوسری طرف امریکہ کی  مشرقِ وسطی کے ذخائر میں دلچسپی کم ہو رہی تھی۔ چونکہ تیل کی قیمت جولائی سے دسمبر کے اوائل تک 100$ سے کم ہوکر 70$ رہ گئی ہے اس لئے شیل آئل انڈسٹری کیلئے یہ ایک سانحہ ہے۔ اس اقدام سے سعودی عرب کے پیشِ نظر یہ ہے کہ امریکہ دوبارہ مشرق وسطی  کے ذخائر میں دلچسپی لے اور وہاں اپنا اثر رسوخ دوبارہ بڑھائے اور اس طرح وہاں داعش کے خلاف ایک مزاحمت کھڑی ہوجائیگی ۔
کچھ دوسرے ماہرین کا کہناہے کہ سعودی عرب اور امریکہ ملکر اپنے مشترکہ دشمنوں یعنی ایران اور روس کو  نقصان  پہنچانے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔ روس کی 50 فی صد آمدنی پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے اسکے علاوہ روبل کا قدر وہاں  تیل کے قیمت کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ روس نے سال 2015 کے لئے فی بیرل 100$ کے حساب سے اپنا بجٹ بنایا تھا۔  جیسےہی تیل کے قیمتوں میں کمی ہوئی ، رو  بل کا قدر ڈالر کے مقابلے میں 40 فی صد کم ہوگیا  اور روس کے وزیر خزانہ کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ بجٹ پہ نظر ثانی کرکے اسے 70$ فی بیرل کے حساب سے مرتب کیا جائے۔ اس طرح کرنے سے روس کو انٹرنیشنل ایکسچینج مارکیٹ سے 74بلین روبل نکالنے پڑیں گے جو روس کی اکانومی کیلئے ایک زبردست جھٹکا ہے۔
ایران کا حال   بھی روس ہی کے جیسا ہے ۔ انکے بجٹ کے توازن کا انحصار بھی 100$ فی بیرل تیل کی قیمت پر ہےاس لئے تیل کی قیمت کم ہونے کی صورت میں ایران کو بھی نقصان کا سامنا ہوگا اور اسے وہ سبسڈیز واپس لینا پڑیں گی جو اس نے ایرانی عوام کو مختلف مصنوعات پہ دی ہیں۔ اسی طرح وینزویلا کے 65فی صد آمدنی بھی پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے اور متوازن معیشت کیلئے اسے 150$ فی بیرل تیل کی قیمت چاہیئے ۔
ان سب ممالک کے علاوہ ایکواڈور، نائجیریا ، قطر ، کویت،متحدہ عرب امارات  اور عراق پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ قطر،کویت  اور متحدہ عرب امارات کیلئے یہ نقصان کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن دوسرے ممالک کیلئے یہ ایک بہت بڑا نقصان  ہوگا خصوصا عراق کی معیشت خراب ہوجانے سے اسکی داعش سے لڑنے کی صلاحیت میں کمی ہوگی اور یہی حال عراقی کردستان کا بھی ہے۔ اس اقدام سے اگر کسی کو فائدہ ہے تو وہ سعودی عرب اور تیل درآمد کرنے والے ممالک کو ہے۔ امریکی شیل آئل انڈسٹری 2017 تک مکمل ناکام ہوجائیگی جسکے نتیجے میں سعودی عرب کے پٹرولیم مصنوعات کی طلب بڑھے گی اور نتیجہ تیل کی قیمتوں اور سعودی عرب کے کسٹمرز میں دوبارہ اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ اس پورے صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سعودی عرب ایک تیر سے کئی شکار کھیل رہا ہے۔
پاکستان کیلئے بھی  اپنی معیشت بہتر بنا نے کا   یہ ایک سنہرا موقع ہے ۔  اوپیک کا دوسرا اجلاس 2015 میں ہونا ہے یعنی کم ازکم ایک سال کیلئے تو تیل کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی اس لئےموجودہ سیاسی بحران میں اگر نواز حکومت سستے تیل کے فوائد کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو  حکومت کی کارکردگی بہتر ہوجائیگی جسکی وجہ  سے عمران خان اگلے انتخابات میں مشکل میں پڑ جائنگے ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں  اور خصوصا کے پی کے حکومت کی بھی بنتی ہے  کہ وہ سیاسی تعصبات سے بالاتر ہوکر عوام کی فلاح اور خوشحالی کیلئے کام کرے اور اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھائے۔

Sunday 18 May 2014

اسلام اور جمہوریت

اسلام پسند سوسائٹی میں باقاعدگی سے ایک سوال گردش کرتا رہا ہے کہ اسلام جمہوریت کا قائل ہے یا نہیں۔ بہت سے دوست تو جمہوریت کا نام سنتے ہی مرنے مارنے پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔  ایسے لوگوں نے صرف جمہوریت کا سنا ہوتا ہے باقی انکے ذہن میں جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ 
دراصل جمہوریت کے دو اقسام ہیں۔ ایک مغربی جمہوریت ہے جسکی تعریف یوں ہے
"Democracy is the government of the people, by the people, for the people." 
اس قسم کی جمہوریت میں لوگوں کی اکثریت ملکر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتی ہے جیسے امریکہ میں شراب نوشی قانون کی رو سے جائز ہے۔ اسی طرح کچھ دنوں پہلے فرانس میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا۔ اب چونکہ اسلام میں حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کی معنی اسلام سے نکل جانے کی ہے اس لئے اس قسم کی جمہوریت کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں۔ اسلام اس قسم کی جمہوریت کی مخالفت اس لئے بھی کرتا ہے کہ اس میں حکومت کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے جبکہ اسلام میں حکومت صرف اللہ تعٰالی کیلئے مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے "حکم صرف اللہ تعٰالی کیلئے ہے۔
دوسری قسم مشرقی جمہوریت ہے جس میں حکومت کا اختیار اللہ تعٰالی کے پاس ہوتا ہے۔ یعنی جو چیز اللہ تعالی نے حرام کی ہو اس میں ایک ملک کی اکثریت تو کیا پوری دنیا بھی ملکر تبدیلی نہیں لا سکتی۔ البتہ حلال کاموں میں مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسکو اگر شورائیت کا نام دیا جائے تو یہ فرق واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ امرھم شورٰی بینھم یعنی وہ اپنے امور میں مشورہ کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی مختلف مواقع پر صحابہ سے مشورہ لیا ہے جس میں ایک مشہور واقعہ جنگِ احد کا ہے جس میں حضورﷺ مدینے کے اندر رہ کر جنگ لڑنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں کی اکثریت مدینے سے باہر نکل کر جنگ لڑنا چاہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنا ارادہ ترک کرکے نوجوانوں کی اکثریت کی رائے قبول کرلی۔ 

Friday 16 May 2014

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

کہا جاتا ھے کہ مذھب افراد کا ذاتی معاملہ ھے اور اسے معاشرے کے اجتماعی معاملات پر اثر انداز نہیں ھونا چاھئے ۔ اگر بالفرض اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو کیا اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ھے کے مذھب کے بغیر انسانوں کے اجتماعی معاملات کو باقاعدہ نمٹایا جا سکتا ھے ۔ معاشرے کے پاس کونسا ایسا قاعدہ رہ جاتا ھے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ھو ؟ قانون سازی ملکی اعتبار سے جدا جدا ھو گی کیونکہ ھر معاشرہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ھے ۔ ایک جگہ کا جرم دوسری جگہ کا اعزاز ھو سکتا ھے ۔ دیکھا گیا ھے کہ اخلاقی اعتبار سے مشرقی ممالک میں حیا کا پرچار ھوتا ھے مگر یہی حیا مغربی ممالک میں جا کر لعنت کا باعث ھو جاتی ھے ۔ تو قانونی اعتبار سے بھی ھمارے پاس کوئی یکساں پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا جس پر انسانی اقدار کو انصاف کے ساتھ ماپا جا سکے ۔ حتمی طورپر صرف مذھب ھی ایک واحد اکائی رہ جاتی ھے جو کلی طور پر تمام انسانی معاشروں کے لئے اخلاقی اقدار کی یکساں تعریف کر سکتا ھے جو ھر معاشرے کے شرفاء کے لئے قابل قبول ھو ۔ یہاں یہ بات ذھن نشین رکھنی چاھئے کے شرفاء ھی وہ معیار ھوں گے جن کی رائے اھمیت کی حامل ھو گی ۔ ورنہ تو ھر معاشرے میں شیطان کے بچے ﴿ لبرلز﴾ بھی پائے جاتے ھیں جن کو ھر اس بات سے اختلاف ھو گا جو انکی مادر پدر آزدی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ مگر صرف چند بیہودہ لوگوں کی خاطر معاشرے کا سکون تو داو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔ اسلئے ضروری ھے کہ انسانی معاشرے میں مذھب کی نہ صرف دخل اندازی ھو بلکہ مذھب کو قانون سازی کا مکمل حق دیا جائے تاکہ فتنہ پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے ۔