Tuesday 24 March 2015

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

کسی بھی معاشرے میں یہ ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہوتی ہے کہ وہ جرائم کی سرزدگی پر مجرم کو سزا دے۔ کسی فرد کے پاس یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ مجرموں کو سزا دے۔ ایسا کرنے سے وہ خود جرم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جرم ایک اجتماعی تنازعہ ہوتا ہے جسکا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جسے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی نگرانی کی ذمہ داری ملی ہو۔اسکے برعکس اگر یہ اختیار فرد کے پاس ہوتا تو اسکا مطلب ہے کہ کسی قوم کے ہر فرد کا حق ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے۔ اس طرح تو پھر یہی ہوگا کہ پوری کی پوری قوم مجرم پہ ٹوٹ پڑے اور اسکا ستیاناس کرے۔ اسکی اجازت نہ تو ہمیں ہمارا دین دیتا ہے نہ آئین دیتا ہے اور نہ ہی یہ بات عقل مانتی ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ مسلم دنیا میں فرد اور ریاست کے درمیان فرق ختم ہوتا جارہا ہے۔ جسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستوں میں قانون کے نفاذ کا کام صحیح طریقے سے نہیں ہورہا ہے، مسلمان ریاستوں کے اندر ریاستی طاقت کے استعمال کا ایک خلاء ہے نتیجتاً فرد آگے بڑھ کر اس خلاء کو پر کر رہا ہے ۔ افراد اور عوام ریاست کی طرف سے مایوس ہورہے ہیں ۔ وہ اپنے معاملات کا حل ریاست کے پاس نہیں پاتے اور خود ہی اسے حل کرنے لگ گئے ہیں۔ اور خصوصاً جرم اگر مذہب یا مذہبی شعائر کے توہین پر مبنی ہو تو اس میں تو فرد مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔
یہ واضح ہونے کے بعدکہ سزاؤں کا نفاذ صرف او ر صرف حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے ، اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہےکہ کسی بھی سزا کے نفاذ کیلئے شرائط کیا ہونے چاہیئں ۔ ایک شرط تو مندرجہ بالا ہے کہ ریاست ہی اسکے نفاذ کی مختار ہے۔ اسکے علاوہ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جرم بالکل اظہرمن الشمس ہونا چاہیئے ۔ اللہ تعالی نے زنا کیلئے حد مقرر کرتے وقت چار گواہوں کی شرط اسی لئے رکھی ہے کہ وہ جرم اتنا واضح ہو کہ اسے چار آدمی باآسانی دیکھ لیں۔ تب ہی جاکر ان پر سزائے تازیانہ یا رجم کی سزا کا نفاذ ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ملاحظہ ہوں۔
ابن ماجہ میں روایت ہے۔ "سزاؤں کو دفع کرو جتنا اسے دفع کرنے کی گنجائش پاؤ۔''
ایک دوسری حدیث میں ہے۔ " مسلمانوں سے سزاؤں کو دور رکھو جہاں تک بھی ہو۔ اگر کسی ملزم کیلئے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو۔"
اسکے علاوہ ایک واقعہ ہے کہ جو اس معاملے میں قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔بخاری و ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ مدینہ میں ایک فاحشہ عورت رہتی تھی لیکن چونکہ اسکے خلاف بدکاری کا کوئی ثبوت نہیں تھا اسلئے اسے کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اسکے متعلق رسول اللہ ﷺ کے الفاظ یہ تھے"اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا۔"
ان روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ محض شک و شبے کی بنیاد پہ کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ فقہاء نے تو ایک فقہی اصول تک وضع کردیا ہے کہ " شبہ سزا دینےکیلئے نہیں بلکہ معاف کرنے کیلئے محرک ہونا چاہیئے۔"
ان تمام روایات اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کابل کے واقعے کو پرکھیئے کہ مردوں پر مشتمل ایک ہجوم ایک عورت کو قرآن کی بے حرمتی کی شبہ (محض الزام) میں بغیر کسی ثبوت کے مار پیٹ کے لہولہان کرنے کے بعد زندہ جلا دیتا ہے جبکہ پولیس کھڑی تماشہ دیکھتی ہے۔اور پھر یہ جانے بغیر کہ کسی کو بطور سزا زندہ جلا دینے کےبارے میں قرآن و سنت کی رائے کیا ہے ایک ملزمہ کو زندہ جلا دینے سے ، یہ اسلام اور شعائر اسلام کے محافظ دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ کیا اس سے اسلام کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا اسکے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مخالفین ِ اسلام اسلام کو کس طرح ایک خونخوار مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئیے کہ آپکا جواب کیا ہوگا اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ پچھلے دو سو سال سے اسلام نے دنیا کو سوائے خونریزی کے کیا دیا ہے۔ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ فرد بذات خود ریاست ہے تو ریاست کی ضرورت آپکو کیا ہے۔ باہر کی دنیا یہ نہیں جانتی کہ اسلام کے اصول اور مسلمان کے عمل کے درمیان فرق کیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے اعمال کو اسلام کے اصولوں کے طور پر لے رہے ہیں۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ایک مسلمان جو کرتا ہے وہ لازمی طور پر اسلام نہیں ہوتا ، بلکہ اسلام تو یہ ہے جو ایک مسلمان کو لازمی طور کرناچاہیئے۔انہیں اسلام میں گناہ اور نیکی کے تصور کا ادراک نہیں ہے۔ وہ مسلمانوں کے گناہوں کو بھی اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان خود بھی یہ نہیں جانتے ۔ یہی مسلمان ہے جو ریاست کے غیر موجودگی کا رونا بھی رو رہا ہے اور یہی مسلمان ہے جو خود ریاست بنا پھر بھی رہا ہے۔ یہی مسلمان ہے جو ذمیوں کے حقوق پر لیکچرز بھی دے رہا ہے اور یہی مسلمان ہے کہ عیسائی جوڑے کو زندہ بھی جلا دیتا ہے ۔ چرچز اور امام بارگاہوں پر حملے بھی کررہا ہے۔ یہی مسلمان ہیں جو اللہ تعالی کو اقتدارِ اعلی کا حاکم مان بھی رہے ہیں اور یہی مسلمان ہیں جو اللہ تعالی کے حدود سے تجاوز بھی کررہے ہیں۔اور ایسی ہی صورتحال میں جب علامہ اقبال اللہ تعالی کو امت مسلمہ کے حالتِ زار کے بارے میں شکوہ کرتا ہے تو جواب آتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود