Sunday 18 May 2014

اسلام اور جمہوریت

اسلام پسند سوسائٹی میں باقاعدگی سے ایک سوال گردش کرتا رہا ہے کہ اسلام جمہوریت کا قائل ہے یا نہیں۔ بہت سے دوست تو جمہوریت کا نام سنتے ہی مرنے مارنے پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔  ایسے لوگوں نے صرف جمہوریت کا سنا ہوتا ہے باقی انکے ذہن میں جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ 
دراصل جمہوریت کے دو اقسام ہیں۔ ایک مغربی جمہوریت ہے جسکی تعریف یوں ہے
"Democracy is the government of the people, by the people, for the people." 
اس قسم کی جمہوریت میں لوگوں کی اکثریت ملکر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتی ہے جیسے امریکہ میں شراب نوشی قانون کی رو سے جائز ہے۔ اسی طرح کچھ دنوں پہلے فرانس میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا۔ اب چونکہ اسلام میں حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کی معنی اسلام سے نکل جانے کی ہے اس لئے اس قسم کی جمہوریت کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں۔ اسلام اس قسم کی جمہوریت کی مخالفت اس لئے بھی کرتا ہے کہ اس میں حکومت کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے جبکہ اسلام میں حکومت صرف اللہ تعٰالی کیلئے مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے "حکم صرف اللہ تعٰالی کیلئے ہے۔
دوسری قسم مشرقی جمہوریت ہے جس میں حکومت کا اختیار اللہ تعٰالی کے پاس ہوتا ہے۔ یعنی جو چیز اللہ تعالی نے حرام کی ہو اس میں ایک ملک کی اکثریت تو کیا پوری دنیا بھی ملکر تبدیلی نہیں لا سکتی۔ البتہ حلال کاموں میں مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسکو اگر شورائیت کا نام دیا جائے تو یہ فرق واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ امرھم شورٰی بینھم یعنی وہ اپنے امور میں مشورہ کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی مختلف مواقع پر صحابہ سے مشورہ لیا ہے جس میں ایک مشہور واقعہ جنگِ احد کا ہے جس میں حضورﷺ مدینے کے اندر رہ کر جنگ لڑنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں کی اکثریت مدینے سے باہر نکل کر جنگ لڑنا چاہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنا ارادہ ترک کرکے نوجوانوں کی اکثریت کی رائے قبول کرلی۔ 

Friday 16 May 2014

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

کہا جاتا ھے کہ مذھب افراد کا ذاتی معاملہ ھے اور اسے معاشرے کے اجتماعی معاملات پر اثر انداز نہیں ھونا چاھئے ۔ اگر بالفرض اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو کیا اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ھے کے مذھب کے بغیر انسانوں کے اجتماعی معاملات کو باقاعدہ نمٹایا جا سکتا ھے ۔ معاشرے کے پاس کونسا ایسا قاعدہ رہ جاتا ھے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ھو ؟ قانون سازی ملکی اعتبار سے جدا جدا ھو گی کیونکہ ھر معاشرہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ھے ۔ ایک جگہ کا جرم دوسری جگہ کا اعزاز ھو سکتا ھے ۔ دیکھا گیا ھے کہ اخلاقی اعتبار سے مشرقی ممالک میں حیا کا پرچار ھوتا ھے مگر یہی حیا مغربی ممالک میں جا کر لعنت کا باعث ھو جاتی ھے ۔ تو قانونی اعتبار سے بھی ھمارے پاس کوئی یکساں پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا جس پر انسانی اقدار کو انصاف کے ساتھ ماپا جا سکے ۔ حتمی طورپر صرف مذھب ھی ایک واحد اکائی رہ جاتی ھے جو کلی طور پر تمام انسانی معاشروں کے لئے اخلاقی اقدار کی یکساں تعریف کر سکتا ھے جو ھر معاشرے کے شرفاء کے لئے قابل قبول ھو ۔ یہاں یہ بات ذھن نشین رکھنی چاھئے کے شرفاء ھی وہ معیار ھوں گے جن کی رائے اھمیت کی حامل ھو گی ۔ ورنہ تو ھر معاشرے میں شیطان کے بچے ﴿ لبرلز﴾ بھی پائے جاتے ھیں جن کو ھر اس بات سے اختلاف ھو گا جو انکی مادر پدر آزدی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ مگر صرف چند بیہودہ لوگوں کی خاطر معاشرے کا سکون تو داو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔ اسلئے ضروری ھے کہ انسانی معاشرے میں مذھب کی نہ صرف دخل اندازی ھو بلکہ مذھب کو قانون سازی کا مکمل حق دیا جائے تاکہ فتنہ پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے ۔