Saturday 6 December 2014

اک تیر سے کئ شکار۔۔۔۔ تیل کے عالمی سظح پر قیمتوں میں کمی کے اثرات۔۔۔


گزشتہ چند مہینوں سے مسلسل عالمی سطح پر تیل کے قیمتوں میں کمی آرہی ہے جس کا فائدہ براہ راست تیل درآمد کرنے والے ممالک کو ہورہا ہے جبکہ  وہ ممالک جنکی آمدنی کا انحصارپٹرولیم مصنوعات پر ہے ان ممالک کیلئے یہ ایک  بہت بڑا اقتصادی دھچکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے قیمتوں کا انحصار مارکیٹ میں اسکی طلب اور یومیہ تیل کی سپلائی پر ہوتا ہے۔  سپلائی میں زیادتی اور طلب میں کمی کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گرتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب دنیا کا سب سے زیادہ تیل سپلائی کرنے والے ممالک میں سے ایک  ہے جو یومیہ 9.7 ملین بیرلز سپلائی کرتا ہے جو اوپیک (OPEC: Organization of Petroleum exporting countries)  ، جس میں سعودی عرب سمیت کل بارہ تیل پیدا کرنے والے ممالک ہیں، کی مجموعی سپلائی کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے باقی دو تہائی حصہ باقی کے 11 ممالک سپلائی کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر پٹرولیم مصنوعات کے قیمتو ں کا زیادہ تر انحصار سعودی عرب کی یومیہ سپلائی پر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند مہینوں پہلے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں تو وینزویلا اور اوپیک میں شامل دوسرے چھوٹے ممالک  نے سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ کچھ وقت کیلئے سپلائی کو منقطع کردے تاکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کو بحال کیا جاسکے لیکن سعودی عرب نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے سپلائی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔جسکی وجہ سے پچھلے چار سالوں میں پہلی بار تیل کی قیمتوں  میں سب سے زیادہ یومیہ کمی دیکھی گئی۔ لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ کیوں وہ اپنی معیشت داؤ پر لگا رہا ہے؟  کیوں وہ اپنے  سالانہ 35بلین ڈالر سے 55 بلین ڈالرکو دریابرد کررہا ہے؟
حال ہی میں بنک آف امریکہ مرل لنچ (Bank of America-Merill lynch)   کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب داعش کی آمدنی کو کم کرنے  اور مشرقِ وسطی  میں انکو اپنا  اثر ورسوخ بڑھانے سے روکنے کیلئے تیل کی قیمت کو 85$ فی بیرل تک لے آئے گا۔دراصل معاملہ یہ ہے کہ داعش اس وقت بشمول موصل عراق اور شام کے کچھ علاقوں پر قابض ہے ۔ شام کے سب سے  بڑےآئل فیلڈ سمیت 60 فی صد تیل کے ذخائر جبکہ عراق کے سات آئل فیلڈز انکے  قبضے میں ہیں جس سے تیل نکال کر وہ ترکی کے بلیک مارکیٹ میں انٹرنیشنل مارکیٹ کےپچاس فی صد قیمت پر فروخت کر تے ہیں ۔اس تیل کو ترکی دوبارہ اپنی قیمت پر یورپی ممالک کو بیچ دیتا ہے۔ اسی تیل سے داعش کو پچھلے گرمیوں میں 3 ملین ڈالر یومیہ آمدنی  مل رہی تھی ۔ اسطرح انکی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی تیل کے ذخائر ہیں۔ داعش چونکہ سعودی عرب  کیلئے  ایک خطرہ ہے اس لئے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے سپلائی منقطع نہ کرنے کے فیصلے سے داعش کے تیل کی قیمت کم ہوجائیگی جو انکی اکانومی پر ایک کاری ضرب ہے ۔
       رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف داعش کو نقصان ہوگا بلکہ  امریکہ اور کینیڈا  کے شیل آئل انڈسٹری (Shale oil)  (وہ تیل جو پتھروں اور ریت  سے حاصل کیا جاتاہے) کو بھی نقصان ہوگا جو سعودی عرب کے متوازی تیل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ شیل آئل کو پتھروں سے نکالنے کیلئے ہائڈرالک  فریکچرنگ (Hydraulic fracturing کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں پانی یا دوسرے مایعات  کے پریشر سے پتھروں کو توڑ کر تیل حاصل کیا جاتاہے چونکہ یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اس لئے اگر تیل کی قیمت 80$ سے کم ہو  تو  نئے تیل کے تلاش اور ڈرلنگ کے لئے منافع کم ہوگا اس لئے امریکہ اور کینیڈا میں کمپنیز انوسٹمنٹ بند کردینگے ۔ چونکہ امریکہ شیل آئل پراجیکٹ کی وجہ سے انرجی کے معاملے میں  خود کفیل ہورہا تھا اور 2008 سے لیکراب تک 3.6 ملین بیرل یومیہ  خام تیل کی  پیداوار بڑھا رہا تھا اس لئے اگر ایک طرف    امریکہ کی شیل آئل انڈسٹری سعودی عرب کے متوازی آرہی تھی تو دوسری طرف امریکہ کی  مشرقِ وسطی کے ذخائر میں دلچسپی کم ہو رہی تھی۔ چونکہ تیل کی قیمت جولائی سے دسمبر کے اوائل تک 100$ سے کم ہوکر 70$ رہ گئی ہے اس لئے شیل آئل انڈسٹری کیلئے یہ ایک سانحہ ہے۔ اس اقدام سے سعودی عرب کے پیشِ نظر یہ ہے کہ امریکہ دوبارہ مشرق وسطی  کے ذخائر میں دلچسپی لے اور وہاں اپنا اثر رسوخ دوبارہ بڑھائے اور اس طرح وہاں داعش کے خلاف ایک مزاحمت کھڑی ہوجائیگی ۔
کچھ دوسرے ماہرین کا کہناہے کہ سعودی عرب اور امریکہ ملکر اپنے مشترکہ دشمنوں یعنی ایران اور روس کو  نقصان  پہنچانے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔ روس کی 50 فی صد آمدنی پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے اسکے علاوہ روبل کا قدر وہاں  تیل کے قیمت کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ روس نے سال 2015 کے لئے فی بیرل 100$ کے حساب سے اپنا بجٹ بنایا تھا۔  جیسےہی تیل کے قیمتوں میں کمی ہوئی ، رو  بل کا قدر ڈالر کے مقابلے میں 40 فی صد کم ہوگیا  اور روس کے وزیر خزانہ کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ بجٹ پہ نظر ثانی کرکے اسے 70$ فی بیرل کے حساب سے مرتب کیا جائے۔ اس طرح کرنے سے روس کو انٹرنیشنل ایکسچینج مارکیٹ سے 74بلین روبل نکالنے پڑیں گے جو روس کی اکانومی کیلئے ایک زبردست جھٹکا ہے۔
ایران کا حال   بھی روس ہی کے جیسا ہے ۔ انکے بجٹ کے توازن کا انحصار بھی 100$ فی بیرل تیل کی قیمت پر ہےاس لئے تیل کی قیمت کم ہونے کی صورت میں ایران کو بھی نقصان کا سامنا ہوگا اور اسے وہ سبسڈیز واپس لینا پڑیں گی جو اس نے ایرانی عوام کو مختلف مصنوعات پہ دی ہیں۔ اسی طرح وینزویلا کے 65فی صد آمدنی بھی پٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتی ہے اور متوازن معیشت کیلئے اسے 150$ فی بیرل تیل کی قیمت چاہیئے ۔
ان سب ممالک کے علاوہ ایکواڈور، نائجیریا ، قطر ، کویت،متحدہ عرب امارات  اور عراق پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ قطر،کویت  اور متحدہ عرب امارات کیلئے یہ نقصان کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن دوسرے ممالک کیلئے یہ ایک بہت بڑا نقصان  ہوگا خصوصا عراق کی معیشت خراب ہوجانے سے اسکی داعش سے لڑنے کی صلاحیت میں کمی ہوگی اور یہی حال عراقی کردستان کا بھی ہے۔ اس اقدام سے اگر کسی کو فائدہ ہے تو وہ سعودی عرب اور تیل درآمد کرنے والے ممالک کو ہے۔ امریکی شیل آئل انڈسٹری 2017 تک مکمل ناکام ہوجائیگی جسکے نتیجے میں سعودی عرب کے پٹرولیم مصنوعات کی طلب بڑھے گی اور نتیجہ تیل کی قیمتوں اور سعودی عرب کے کسٹمرز میں دوبارہ اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ اس پورے صورتحال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سعودی عرب ایک تیر سے کئی شکار کھیل رہا ہے۔
پاکستان کیلئے بھی  اپنی معیشت بہتر بنا نے کا   یہ ایک سنہرا موقع ہے ۔  اوپیک کا دوسرا اجلاس 2015 میں ہونا ہے یعنی کم ازکم ایک سال کیلئے تو تیل کی قیمتیں نہیں بڑھیں گی اس لئےموجودہ سیاسی بحران میں اگر نواز حکومت سستے تیل کے فوائد کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو  حکومت کی کارکردگی بہتر ہوجائیگی جسکی وجہ  سے عمران خان اگلے انتخابات میں مشکل میں پڑ جائنگے ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں  اور خصوصا کے پی کے حکومت کی بھی بنتی ہے  کہ وہ سیاسی تعصبات سے بالاتر ہوکر عوام کی فلاح اور خوشحالی کیلئے کام کرے اور اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھائے۔

Sunday 18 May 2014

اسلام اور جمہوریت

اسلام پسند سوسائٹی میں باقاعدگی سے ایک سوال گردش کرتا رہا ہے کہ اسلام جمہوریت کا قائل ہے یا نہیں۔ بہت سے دوست تو جمہوریت کا نام سنتے ہی مرنے مارنے پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔  ایسے لوگوں نے صرف جمہوریت کا سنا ہوتا ہے باقی انکے ذہن میں جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ 
دراصل جمہوریت کے دو اقسام ہیں۔ ایک مغربی جمہوریت ہے جسکی تعریف یوں ہے
"Democracy is the government of the people, by the people, for the people." 
اس قسم کی جمہوریت میں لوگوں کی اکثریت ملکر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتی ہے جیسے امریکہ میں شراب نوشی قانون کی رو سے جائز ہے۔ اسی طرح کچھ دنوں پہلے فرانس میں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا۔ اب چونکہ اسلام میں حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کی معنی اسلام سے نکل جانے کی ہے اس لئے اس قسم کی جمہوریت کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں۔ اسلام اس قسم کی جمہوریت کی مخالفت اس لئے بھی کرتا ہے کہ اس میں حکومت کرنے کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے جبکہ اسلام میں حکومت صرف اللہ تعٰالی کیلئے مخصوص ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے "حکم صرف اللہ تعٰالی کیلئے ہے۔
دوسری قسم مشرقی جمہوریت ہے جس میں حکومت کا اختیار اللہ تعٰالی کے پاس ہوتا ہے۔ یعنی جو چیز اللہ تعالی نے حرام کی ہو اس میں ایک ملک کی اکثریت تو کیا پوری دنیا بھی ملکر تبدیلی نہیں لا سکتی۔ البتہ حلال کاموں میں مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے اسکو اگر شورائیت کا نام دیا جائے تو یہ فرق واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ امرھم شورٰی بینھم یعنی وہ اپنے امور میں مشورہ کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی مختلف مواقع پر صحابہ سے مشورہ لیا ہے جس میں ایک مشہور واقعہ جنگِ احد کا ہے جس میں حضورﷺ مدینے کے اندر رہ کر جنگ لڑنا چاہتے تھے لیکن نوجوانوں کی اکثریت مدینے سے باہر نکل کر جنگ لڑنا چاہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اپنا ارادہ ترک کرکے نوجوانوں کی اکثریت کی رائے قبول کرلی۔ 

Friday 16 May 2014

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

اجتماعی معاملات میں مذہب کی ضرورت

کہا جاتا ھے کہ مذھب افراد کا ذاتی معاملہ ھے اور اسے معاشرے کے اجتماعی معاملات پر اثر انداز نہیں ھونا چاھئے ۔ اگر بالفرض اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے تو کیا اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ھے کے مذھب کے بغیر انسانوں کے اجتماعی معاملات کو باقاعدہ نمٹایا جا سکتا ھے ۔ معاشرے کے پاس کونسا ایسا قاعدہ رہ جاتا ھے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ھو ؟ قانون سازی ملکی اعتبار سے جدا جدا ھو گی کیونکہ ھر معاشرہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ھے ۔ ایک جگہ کا جرم دوسری جگہ کا اعزاز ھو سکتا ھے ۔ دیکھا گیا ھے کہ اخلاقی اعتبار سے مشرقی ممالک میں حیا کا پرچار ھوتا ھے مگر یہی حیا مغربی ممالک میں جا کر لعنت کا باعث ھو جاتی ھے ۔ تو قانونی اعتبار سے بھی ھمارے پاس کوئی یکساں پیمانہ باقی نہیں رہ جاتا جس پر انسانی اقدار کو انصاف کے ساتھ ماپا جا سکے ۔ حتمی طورپر صرف مذھب ھی ایک واحد اکائی رہ جاتی ھے جو کلی طور پر تمام انسانی معاشروں کے لئے اخلاقی اقدار کی یکساں تعریف کر سکتا ھے جو ھر معاشرے کے شرفاء کے لئے قابل قبول ھو ۔ یہاں یہ بات ذھن نشین رکھنی چاھئے کے شرفاء ھی وہ معیار ھوں گے جن کی رائے اھمیت کی حامل ھو گی ۔ ورنہ تو ھر معاشرے میں شیطان کے بچے ﴿ لبرلز﴾ بھی پائے جاتے ھیں جن کو ھر اس بات سے اختلاف ھو گا جو انکی مادر پدر آزدی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔ مگر صرف چند بیہودہ لوگوں کی خاطر معاشرے کا سکون تو داو پر نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔ اسلئے ضروری ھے کہ انسانی معاشرے میں مذھب کی نہ صرف دخل اندازی ھو بلکہ مذھب کو قانون سازی کا مکمل حق دیا جائے تاکہ فتنہ پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی کی جا سکے ۔